نئ قومی تعلیمی پالیسی میں اردو زبان کو شامل کیا جاۓ۔خاندیش اردو کونسل کے واٹس ایپ گفتگو میں اردو کےماہرین اساتذہ و صحافیوں کا مطالبہ


جلگاؤں (نامہ نگار )مرکزی حکومت کی جانب سے حال ہی میں ملک کے تعلیمی نظام میں تبدیلی کی غرض سے نئ قومی تعلیمی پالیسی کا اعلان کیا گیا۔اس پالیسی میں اردو زبان کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا۔ملک عزیز میں سب سے زیادہ بولی جانے والی اور آسانی سے سمجھے جانے والی اردو زبان سر فہرست زبان ہے۔لیکن پھر بھی اس زبان کو نئ قومی تعلیمی پالیسی میں شامل نہ کرنا اس زبان کے ساتھ بڑی ناانصافی ہے۔اس پس منظر میں خاندیش اردو کونسل جلگاؤں نے واٹس ایپ گفتگو کا اعلان کیا تھا۔ کونسل کے صدر عقیل خان بیاولی ، سیکرٹری سعید پٹیل و کوآرڈینیٹر نوشاد حمید نے تمام شرکاء کا استقبال کیا و اس ضمن میں ابتدائ کلمات سے اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی۔بعدازاں  ماہر تعلیم سبکدوش کیندر پرمکھ ڈاکٹر شکیل سعید  ،اینگلو اردو ہائ اسکول کے ٹچر شیخ وسیم احمد ، فری جنرنلیسٹ و کونسلینگ ماہر عقیل خان بیاولی ،صحافی واثق نوید کھام گاؤں ،صحافی اعظم پٹھان سلوڑ ، سماجی خدمتگار و منیار برادری کے ریاستی صدر فاروق شیخ ،  اردو زبان و ادب سے شغف رکھنے والے ڈاکٹر التمش شیخ اور صحافی سعید پٹیل وغیرہ حضرات نے اپنی فکری و رہنمایانہ تحریروں سے اس واٹس ایپ گفتگو میں شرکت کی۔اس ضمن میں مذکورہ ماہرین و اردو زبان و ادب کی ترقی کی تڑپ رکھنے والے حضرات نے اس واٹس ایپ گفتگو میں شرکت کرکے ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے اہم مسلے کا مناسب حل تلاش کرنے کے تعلق سے ہمیں اپنے تاثرات سے رہنمائ کیں۔ماہرین نے جو اپنے اظہار خیال و تحریری گفتگو کے پس منظر میں جو تاثرات پش کۓ گۓ وہ اس طرح ہے۔" زبان کا تعلق صرف تعلیم سے نہیں ہےبلکہ زبان ایک تہذیب اور معاشرتی نظام زندگی کا آئینہ بھی ہوتی ہے۔کوئ بھی زبان کسی کی اعلی تعلیم و تربیت میں رکاوٹ نہیں بنتی ہے۔اردو بھی ایک زبان ہی نہیں بلکہ اردو اس ملک کی مشترکہ وراثت ہے۔گنگا جمنی تہذیب کا نام اردو ہے۔ہمارے ملک میں ١٨ زبانیں جو شمار کی جاتی ہیں ان میں اردو بھی شامل ہے۔اس لۓ نئ قومی تعلیمی پالیسی میں اسے اس کا جائز مقام ملنا چاھیۓ۔"سبکدوش پرائمری تعلیم کے کیندر پرمکھ عہدے پر فائز رہ چکے ڈاکٹر شکیل سعید بیاول انھوں  نے اپنی زریں راۓ میں کہاکہ  بچہ اپنے گھر اپنے ماحول اپنے خاندانی ماحول اور اپنی والدہ سے جو زبان سکھتا ہے وہ اس کی مادری زبان ہوتی ہے۔مادری زبان کی تعلیمی میدان میں اپنی ایک الگ اہمیت ہے۔ماہرین نے بالخصوص ملک عزیز کے ماہرین نے مادری زبان کو ذریعہ تعلیم تسلیم کیا ہے۔اس سے اس کی اہمیت و افادیت واضع ہے۔چنانچہ عہد قدیم سے ملک میں مادری زبان ہی ذریعہ تعلیم رہا۔نئ قومی تعلیمی پالیسی نے اس کو فراموش کرنا ،گویا اپنے ملکی شہریان کا تمدن کی تہذیب کا نقصان کے مترادف ہے۔ابتدائ جماعت کے بچوں کو ٦ سال تا ١٤ سال کی عمر میں بنیادی تصورات کو سمجھنے کےلۓ مادری زبان نہایت ہی مفید اور کارآمد ہے۔اس لۓ مادری زبان کی تعلیم کو برقرار رکھا جاۓ۔پنجم یا ھشتم سے مادری زبان کو ترک کرنا گویا طلبہ کی تعلیمی ترقی کو بریک لگانے سے کم نہیں ہے۔اس لۓ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پالیسی کے نکات پر اسر نو غور کریں۔کم از کم بارھویں جماعت تک کی تعلیم میں مادری زبان قائم رکھیں جاۓ۔ صحافی واثق نوید کھام گاؤں نے اس تعلق سے نئ تعلیمی پالیسی میں اردو کے تعلق سے تشویش کی کوئ بات نہیں ہے۔کیونکہ نئ قومی تعلیمی پالیسی میں واضع طور پر کہاگیا ہے کہ طالب علم کو ابتدائ تعلیم اس کی مادری زبان میں ہی دی جاۓ ، ہاں ہمیں جس بات پر زور دینا ہوگا وہ یہ کہ اس میں دور دور تک سیکولر لفظ نہیں دیکھائ دے رہا ہے۔جو ہمارے ملک کی سالمیت ،ایکتا کے لۓ ضروری ہے۔ہمارے ملک بھارت کا جمہوری ڈھانچہ جس سیکولرازم پر کھڑا ہے۔وہ اگر نئ قومی تعلیمی پالیسی میں شامل نہیں کیاگیا تو ملک کی گنگا جمنی تہذیب کا بہت بڑا نقصان ہوگا اور مستقبل میں اس کا خمیازہ اردو زبان کو بھگتنا پڑےگا۔اینگلو اردو ہائ اسکول جلگاؤں کے ٹچر  شیخ وسیم احمد انھوں نے اپنے اظہار خیال میں کہاکہ نئ قومی تعلیمی پالیسی کےلۓ   ہمیں ہوش کے ناخن لےکر حکومت کے اس فیصلے پر نظرثانی کا مطالبہ کرنا چاھیۓ۔انفرادی اور اجتماعی کوشش اور جہد سے اردو کی بقاء اور ترویج کرنی ہوگی۔اردو کے ادارے اور اسکول اردو کی بقاء و ترویج کے ضامن ہے۔جبکہ حکومت نے خود پانچویں جماعت تک بچے کو اس کی مادری زبان میں تعلیم دینے کی بات کہی ہے۔وہی دوسری جانب اردو کو مادری زبان کی فہرست سے نکال دیا ہے۔اس لۓ ہمیں اردو کو اس کا جائز مقام ملنے کےلۓ مطالبہ کرناچاھیۓ۔صحافی و نامہ نگار اعظم پٹھان سیلوڑ انھوں  نےکہا کہ  نئ قومی تعلیمی پالیسی میں حکومت جو چاھے اختیار کریں لیکن دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو زبان صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔بلکہ یہ ملک کی قدیم زبان ہے۔جس کے ساتھ انصاف کیا جانا تعلیمی اعتبار سے ضروری ہے۔ان حضرات کے علاوہ سماجی خدمتگار  فاروق شیخ ، صحافی  سعید پٹیل ، فری جنرلیسٹ عقیل خان بیاولی اور  ڈاکٹر التمش شیخ نے بھی اپنے تاثرات سے اس گفتگو میں نمایاں رہنمائ کی اور اسے کامیاب بنانے میں ہماری دعوت پر واٹس ایپ گفتگو میں شرکت کیں۔

Comments