اورنگ آباد۔احمدنگر ان شہروں کے نام بدلنے کی سیاست پھرگرمانے کی کوشش۔۔؟؟؟ ‏

 تجزیہ خبر سعید پٹیل جلگاؤں اورنگ آباد کا نام بدلنے کا پرانہ تنازعہ آگے آنےکےبعد اب احمدنگر شہرکا نام تبدیل کرنے کا پرانہ مطالبہ شیوسینا نے آگے کردی ہے۔احمدنگر شہرکانام بدل کے امبیکا نگر کرنے کا مطالبہ شرڈی کےشیوسینا کے رکن پارلیمانی سداشیو لوکھنڈے انھوں نے کی ہے۔اورنگ آباد کا نام تبدیل کرکے سمبھاجی نگر ہوناچاھیۓ یہ بہت پرانہ عوامی مطالبہ کہےکر پھر سے سیاست گرم کرنے کی کوشش ایک مرتبہ زور پکڑنے لگی ہے۔اس تعلق سے شیوسینا کا کہنا ہےکہ ہمارے پارٹی پرمکھ وزیراعلیٰ جومناسب فیصلہ لیں گے۔لیکن اورنگ آباد کے ساتھ ساتھ احمد نگر شہر کو امبیکانگر نام دینے کا ہمارا مطالبہ ہونے کی بات کہےکر شیوسینا کے ایم پی شری سداشیو لوکھنڈے انھوں نے پرانے مطالبے کو تازہ کرکے مطالبے کے غبارے میں تنازعے کی ہوا بھری ہے۔جبکہ فلحال اورنگ آباد شہر کا نام بدلنے کی پرانی مانگ کو نۓ مسالے کے ساتھ پکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اسی دوران کانگریس کے ریاستی صدر و وزیر محصول بالاصاحب تھورات انھوں نے اس مطالبے کی مخالفت کرنے کا اظہار کیاہے۔اس لۓ ریاست کی مہاوکاس آگھاڑی کی مشکل ہورہی ہے۔اسی دوران اقتدار کے انتظار میں بیٹھی بی۔جے۔پی کے لیڈران نے اس مسلے میں ہوا بھرنے کی شروعات کردی ہیں۔اورنگ آباد میں یہ سیاسی یا تعصبی کھیل کھیلا جارہا ہے۔اسی دوران شرڈی کے شیوسینا کے رکن پارلیمان سداشیو لوکھنڈے انھوں نے احمدنگر شہر کے نام بدلنے کے پرانے مطالبے کو آگے کیا ہے۔جبکہ گذشتہ کئ برسوں سے شیوسینا سمیت ہندوتو تنظیموں کی جانب سے احمدنگر کا نام تبدیل کرنے کی کوشش شروع ہے۔لیکن اس میں بھی کچھ لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔کچھ کو امبیکا نگر ہونا تو کچھ نے آنندنگر نام سجھایا ہے۔امبیکا نگر نام دینے کا مطالبہ بہت پرانہ ہے۔جس کےلۓ کئ مرتبہ احتجاج بھی کۓ گۓ۔اسی طرح احمدنگر میں گذشتہ برسوں میں ہوۓ سترویں( ٧٠) ساہیتہ سمیلن میں بھی یہ مطالبہ پیش کیاگیاتھا۔بلدیہ اعظمیٰ کے چناؤ عنقریب ہے۔ایسے میں پرانے تنازعے کو سامنے لانے سے پھر ایک مرتبہ سیاست گرمائ ہیں۔اورنگ آباد شہر کانام بدلنے کے معاملے بی۔جے۔پی۔شیوسینا آمنے۔سامنے آگئ ہیں۔جبکہ ریاست کی برسراقتدار مہاوکاس آگھاڑی کی ایک کڑی کانگریس کی جانب سے اس نام بدلنے کے مطالبے کی مخالفت کی ہے۔اسی کو بی۔جے۔پی نے مدا بناکر شیوسینا کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن شیوسینانے اس مدے پر بی۔جے۔پی پر تنقید کی ہے۔یہاں پر ایک بات اہم ہےکہ ایک پرانے تنازعے کو کیوں تازہ کیا جارہاہے۔جبکہ اس میں مہاوکاس آگھاڑی کے تعلقات کے پس منظر میں دیکھا نہیں جاسکتا کیوں کہ ریاست میں کانگریس کا وزیر اعلیٰ ہوتے ہوۓ سرکاری دفتر میں نام نہ ہوتے ہوۓ شیوسینا نے شہر کا نام سمبھاجی نگر کردیاتھا۔پھر اس مسلہ کو کیوں تازہ کیاگیا۔؟ جبکہ مہاراشٹر کی عوام کھلےذہین اور کشادہ دلی کے طریقہ کار سے ترقی کی خواہش مند ہیں۔یہ ریاست صوفی۔سنتوں کے بتاۓ ہوۓ راستوں پر چلناپسند کرتی ہیں۔ ایسی ریاست میں برسراقتدار یا حسب مخالف کی جانب سے ایسے معاملات کو ہوا دینا مناسب نہیں ہے۔یہاں سب سے اہم یہ بات ہےکہ مہاوکاس آگھاڑی میں شامل سیاسی جماعتوں نے بی۔جے۔پی کو اقتدار سے دور رکھا اور دوسرے یہ کے ان سیاسی جماعتوں میں گذشتہ سال بھر سے بہتر تعلقات کے ساتھ اچھا تال۔میل کا مظاہرہ عوام کو اس حکومت کے حوالے سے دیکھنے کو ملا۔اس لۓ ایسے تنازعات سے موجودہ حکومت میں شامل سیاسی پارٹیاں اپنےآپ کو دور رکھےاور اپنے اقتدار کی معیاد پوری کرے ،یہی ریاست کی عوام کو مہاوکاس آگھاڑی سے امیدیں وابستہ ہیں۔

Comments