جلگاؤں : (سید علی انجم رضوی) : "آج ہمارے ملک کے حالات نہایت ہی سنگین ہیں۔ مسلمان بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ کبھی ہماری بچیوں کے حجاب کو نشانہ بنایا جا رہا ہو تو کہیں جھوٹی فلمیں بنا کر بے بنیاد الزامات کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول بنایا جا رہا ہے۔ اس زہرآلود ماحول میں ہمیں نہایت ہی صبر و تحمل کے ساتھ ان ناگفتہ بہ حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ آج میں آپ کے شہر میں اپنی سیاسی پارٹی کو فروغ دینے کے لیے نہیں آیا ہوں بلکہ سیاست سے اوپر اٹھ کر ملی مسائل کو حل کرنے کے لیے آپ کو متحد کرنے آیا ہوں۔ الحمدللہ جلگاؤں تعلیم یافتہ اور باشعور مسلمانوں کا شہر ہے۔ یہاں کا تعلیمی ماحول بھی بہت بہتر ہے۔ لہٰذا اپنے درمیان موجود معلولی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے آپ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر آنے کی ضرورت ہے۔
سیاست سے میرا کوئی تعلق نہیں تھا۔ مگر 1990 میں مجھے بے گناہ ایک سال تک جیل میں ڈال کر رکھا گیا۔ پھر 1992 میں ہونے والے ممبئی کے مسلم کُش فسادات نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ پھر مسلمانوں کی سیاسی طاقت کو مضبوط کرنے کے لیے میں نے سیاست میں قدم رکھا۔ آج مہاراشٹر حکومت میں دو مسلم کابینی وزیر میرے ہی تربیت یافتہ ہیں۔ مجھے وزیر بننے کا کبھی لالچ نہیں رہا۔
مسلمانوں کا استعمال صرف ووٹ لینے کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن ان کے مسائل سے سب چشم پوشی کرتے ہیں۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور این سی پی مسلمانوں کے ووٹ کو اپنا حق سمجھتی ہے، مگر ان کی طرف توجہ نہیں دیتیں۔ 2014 میں مہاراشٹر میں جب کانگریس اور راشٹروادی کی حکومت تھی، اس وقت انھوں نے عین اسمبلی الیکشن سے پہلے مسلمانوں کو پانچ فی صد ریزرویشن دینے کا اعلان کیا۔ مگر اسمبلی میں اسے پاس نہیں کیا۔ اس لیے 2014 کے اسمبلی الیکشن کے بعد مہاراشٹر میں جب بی جے پی - شیوسینا کی حکومت آئی تو چھ مہینے بعد ریزرویشن کا وہ فیصلہ خود بخود کالعدم ہو گیا۔ پھر اس کے بعد پانچ سال تک یہ لوگ ہمارے ساتھ مسلمانوں کے ریزرویشن لیے چینخ و پکار کرتے رہے مگر اب ریاست میں کانگریس - این سی پی کی حکومت آنے کے بعد ریزرویشن کے بارے میں ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتے۔ مہاراشٹر میں کانگریس اور راشٹروادی کی حکومت ہونے کے باوجود مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی ہونے باوجود بجٹ میں ان کے لیے صرف چند سو کروڑ رکھے جاتے ہیں جبکہ ادیواسیوں کے کئی ہزار کروڑ رکھے گئے ہیں۔ شیو سینا کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے شان سے کہتے ہیں کہ میرے شیو سینکوں نے بابری مسجد مسمار کی، اس پر مجھے فخر ہے۔ میں کیسے ان لوگوں کے ساتھ کام کروں ۔
کچھ لوگ مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ "تم نے اگر غیروں کو ووٹ دیا تو اللہ کا عذاب آئے گا۔ اگر غیروں کو اپنا قائد بنایا تو فرشتے تمھارے لیے بددعائیں کریں گے۔ ایسا کر کے تم شریعت کی مخالفت کرو گے۔" یہ کیسی سیاست ہے۔ ریاست میں ہم صرف اپنے دم پر سیاست نہیں کر سکتے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو اسمبلی اور پارلمینٹ میں ہماری تعداد نہیں کے برابر ہوگی۔
اس لیے ہمیں ہم وطن بھائیوں کے ساتھ سیاست میں اپنا مقام حاصل کرنا ہے۔ آج ہمیں اپنی حالتِ زار پر غور کرنا ہے۔ آپ مجھے مشورہ دیجیے کہ کیا لائحہ عمل ہو کہ ہم ان حالات کا مقابلہ کر سکیں۔"
اعظمی صاحب سے قبل اسٹوڈنٹ لیڈر فہد احمد نے مدلل تقریر کی۔ بڑی کامیابی سے آپ نے حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے قوم کے نوجوانوں کو میدانِ عمل میں آنے کی دعوت دی۔
اس نمائندہ اجلاس میں شہر کی مقتدر شخصیات موجود تھیں۔ اقراء ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر عبدالکریم سالار، خدمتِ خلق ایجوکیشن سوسائٹی کے امان اللہ شاہ، منیار برادری کے ریاستی صدر فاروق شیخ، معروف صحافی سید علی انجم رضوی، الفیض ایجوکیشن سوسائٹی کے عبدالعزیز سالار، ایم آئی ایم کے رکنِ بلدیہ ریاض باغوان، جماعتِ اسلامی کے سہیل امیر، اقراء کے رکن طارق شیخ عبدالرؤف ، مراٹھی صحافی اشفاق پنجاری، راغب احمد، راشٹروادی کے سلیم انعامدار اور رضوان کھاٹک، عیدگاہ و قبرستان ٹرسٹ کے اشفاق باغوان اور انیس شاہ، ایم آئی ایم کے سابق ضلعی صدر ضیاء باغوان، امن سوسائٹی کے صدر سید شاہد، قادری فاؤنڈیشن کے فاروق قادری، نامہ نگار سعید پٹیل، وائرل نیوز کے رضوان فلاحی وغیرہ موجود تھے۔
سماج وادی پارٹی کے چیف جنرل سیکریٹری پرویز صدیقی (ناگپور)، اورنگ آباد سے روف شیخ، دھولیہ سے گڈو کا کر خصوصی طور پر موجو تھے۔ الفیض پٹیل نے نظامت کی جبکہ سہیل امیر نے ابتدائی کلمات ادا کیے۔
پروگرام کو کامیاب بنانے میں سماج وادی کے ریاستی صدر رئیس باغوان، بام سیف کے فہیم پٹیل، مجاہد آزادی میر شکراللہ فاؤنڈیشن کے میر ناظم علی، دانش شیخ، رئیس سلیم، رضوان جاگیردار، ادریس منیار نے محنت کی۔
Comments
Post a Comment